حدیث مبارکہ

0
مصنف :
موضوع :
 - 
اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ

قول الله تعالى ‏ {‏ من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا‏}‏

مومنوں میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچ کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا ‘ پس ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو (اللہ کے راستے میں شہید ہو کر) اپنا عہد پورا کر چکے اور کچھ ایسے ہیں جو انتظار کر رہے ہیں اور اپنے عہد سے وہ پھرے نہیں ہیں۔

حدثنا محمد بن سعيد الخزاعي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الأعلى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن حميد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال سألت أنسا‏.‏ حدثنا عمرو بن زرارة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا زياد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني حميد الطويل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال غاب عمي أنس بن النضر عن قتال بدر فقال يا رسول الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ غبت عن أول قتال قاتلت المشركين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لئن الله أشهدني قتال المشركين ليرين الله ما أصنع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما كان يوم أحد وانكشف المسلمون قال ‏"‏ اللهم إني أعتذر إليك مما صنع هؤلاء ـ يعني أصحابه ـ وأبرأ إليك مما صنع هؤلاء ‏"‏ ـ يعني المشركين ـ ثم تقدم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاستقبله سعد بن معاذ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال يا سعد بن معاذ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ الجنة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ورب النضر إني أجد ريحها من دون أحد‏.‏ قال سعد فما استطعت يا رسول الله ما صنع‏.‏ قال أنس فوجدنا به بضعا وثمانين ضربة بالسيف أو طعنة برمح أو رمية بسهم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ووجدناه قد قتل وقد مثل به المشركون،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فما عرفه أحد إلا أخته ببنانه‏.‏ قال أنس كنا نرى أو نظن أن هذه الآية نزلت فيه وفي أشباهه ‏ {‏ من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه‏}‏ إلى آخر الآية‏.‏

ہم سے محمد بن سعید خزاعی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا (دوسری سند) ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں حاضر نہ ہو سکے ‘ اس لئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں پہلی لڑائی ہی سے غائب رہا جو آپ نے مشرکین کے خلاف لڑی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب احد کی لڑائی کا موقع آیا اور مسلمان بھاگ نکلے تو انس بن نضر نے کہا کہ اے اللہ! جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے (مشرکین کی طرف) تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے سامنا ہوا۔ ان سے انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا اے سعد بن معاذ! میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور نضر (ان کے باپ) کے رب کی قسم میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جو انہوں نے کر دکھایا اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد جب انس بن نضر رضی اللہ عنہ کو ہم نے پایا تو تلوار نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے وہ شہید ہو چکے تھے مشرکوں نے ان کے اعضاء کاٹ دئیے تھے اور کوئی شخص انہیں پہچان نہ سکا تھا ‘ صرف ان کی بہن انگلیوں سے انہیں پہچان سکی تھیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم سمجھتے ہیں (یا آپ نے بجائے نری کے نظن کہا) مطلب ایک ہی ہے کہ یہ آیت ان کے اور ان جیسے مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ مومنوں میں کچھ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا آخر آیت تک۔

وقال إن أخته وهى تسمى الربيع كسرت ثنية امرأة فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقصاص،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال أنس يا رسول الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ والذي بعثك بالحق لا تكسر ثنيتها‏.‏ فرضوا بالأرش وتركوا القصاص،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره ‏"‏‏.‏

انہوں نے بیان کیا کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی ایک بہن ربیع نامی رضی اللہ عنہا نے کسی خاتون کے آگے کے دانت توڑ دیئے تھے ‘ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قصاص لینے کا حکم دیا۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنایا ہے (قصاص میں) ان کے دانت نہ ٹوٹیں گے۔ چنانچہ مدعی تاوان لینے پر راضی ہو گئے اور قصاص کا خیال چھوڑ دیا ‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھا لیں تو اللہ خود ان کی قسم پوری کر دیتا ہے۔

حدثنا أبو اليمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا شعيب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثني إسماعيل،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثني أخي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سليمان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أراه عن محمد بن أبي عتيق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن خارجة بن زيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ قال نسخت الصحف في المصاحف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ففقدت آية من سورة الأحزاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كنت أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ بها،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلم أجدها إلا مع خزيمة بن ثابت الأنصاري الذي جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم شهادته شهادة رجلين،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وهو قوله ‏ {‏ من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه‏}‏

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے ‘ دوسری سند اورمجھ سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان نے ‘ میرا خیال ہے کہ محمد بن عتیق کے واسطہ سے ‘ ان سے ابن شہاب (زہری) نے اور ان سے خارجہ بن زید نے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب قرآن مجید کو ایک مصحف کی (کتابی) صورت میں جمع کیا جانے لگا تو میں نے سورۃ الاحزاب کی ایک آیت نہیں پائی جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برابر آپ کی تلاوت کرتے ہوئے سنتا رہا تھا جب میں نے اسے تلاش کیا تو) صرف خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے یہاں وہ آیت مجھے ملی۔ یہ خزیمہ رضی اللہ عنہ وہی ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول اللہ نے دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی (( من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدو اللہ علیہ )) (الاحزاب: 23) ترجمہ باب کے ذیل میں گزر چکا ہے)۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


اوپرجائیں