أضـواء کے قلم سے

1
مصنف :
موضوع :
 - 

بارشـــوں كے غــم ...)أضـواء (





بارشـــوں كے غــم ...
...ميــرے شــهر مــيں ...
...بارش كے انتــظار مــيں ...
..شوقِ نظارہ ليئے ..ذوقِ تصوّر مــيں ...
مدت سے ہم ..اسى تــمنــا مــيں ...
...دعاء مانگـتے ہيں ..
مگر لگـتا ہے ..ان كے ..غــم بہت زياده 
بڑهگئے .. 
..برسے گـا شــبنم كى طـرح ...
رؤيگا كهل كر نهيں وه ...







ساون كا موســــم ... (أضــواء )

ساون كا موســــم ...
... يعنى تيــــرى يـادوں كا مـوســـم ..
.. اســى موســم ميـں ..
بچهــڑے تـهـے ...
.. اســى موســم ميـں .. ملتے ہے..




نہ جانے کیسی قیامت کا پیش خیمہ ہیں
یہ اُلجھنیں تیری بے انتساب آنکھوں میں

یہ کہہ دو ابرباراں سے، اگر برسے تو یوں برسے
کہ جیسے مینہہ برستا ہے، ہمارے دیدہٴتر سے


میری داستاں غم کی کوئی قیدو حد نہیں ہے
ترے سنگ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک





ايک خواہش

بہت جي چاہتا ہے
مَيں ترے شانوں پہ سر رکھ کر
بہا ڈالوں وہ سب آنسو
جو ميرے دل کي شريانوں ميں چھبتے ہيں
اُبلتے ہيں کسي لاوے کي صورت
اور آنکھوں تک نہيں آتے
کسي آغاز سے پہلے کسي انجام کے آنسو
ترے ہمراہ سوچي عمر کي اک شام کو آنسو
کہيں دشتِ محبت ميں
نظر کي خوش خيالي کے سنہري دام کے آنسو
يہ تيرے نام کے آنسو

بہا دوں سب
ترے شانوں پہ سر رکھ کر
تو شايد زندگي کا راستہ
پھر سے چراغ آثار ہو جائے
اَنا کے قصہء نا م ختمم ميں ہار کا اقرار ہو جائے
يہ دريا فاصلوں کا
لمحہ بھر ميں پار ہو جائے

نصیب صحبتِ یاراں نہیں تو کِیا کیجئےY_rose
Y_rose یہ رقصِ سا یۂِ سرو و چنار کا موسم

کتنے بیتاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا






عجيب شخص تھا بارش کا رنگ ديکھ کے بھی
کھلے دريچے پہ اک پھول دان چھوڑ گيا
جو بادلوں سے بھی مجھکو چھپائے رکھتا تھا
بڑھی ہے دھوپ تو بے سائباں چھوڑ گيا


اب يـہ مـوســم مـيــري پـهــچـان طـلـب كـرتـے هـيـں
مـيـں جـب آيـا تــهــا يـهـاں تـازه هــواء لايـا تـهــا

سرد راتوں کے مہکتے ہوءے سناٹوں میں
جب کسی پھول کو چھوؤ گی تو یاد آؤگا

اب تیرے اشک میں ہونٹوں سے چُرا لیتا ہوں
ھاتھ سے خود انہیں پونچھوں گی تو یاد آؤنگا

شال پہناءے گا اب کون دسمبر میں تمھیں
بارشوں میں کبھی بھیگو گی تو یاد آؤنگا










Y_rose
پگلي
سپنوں کي بارش ميں بھيگتي لڑکي
تم کو کيا معلوم
کہ خواب سے بچھڑے لوگ يہاں کيسے جيتے ہيں؟Y_rose









تيري جھيل سي گہري آنکھوں ميں تو گوري
نيند کي پرياں روز نہانے آجاتي ہيں
تيرا دل بہلا جاتي ہيں
پر ہم تنہا 
درد کي زرد صليب پہ 
کب سے لٹک رہے ہيں؟
جينے کي خواہش ميں
موت کي وادي ميں ہم بھٹک رہے ہيں




HeartHeart بچھڑيں گے ياد شدت سے آيا کريں گے تم کوHeartHeart
HeartHeartساون کا بن کے بادل رلايا کريں گے تم کوHeartHeart








HeartHeartموسم تھا بیقرار تمہیں سوچتے رہےHeartHeart
کل رات بار بار تمہیں سوچتے رہےHeart
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہمHeart
HeartHeartچپ چاپ سوگوار تمہیں‌ سوچتے رہےHeartHeart



رات لبوں پر کیا کیا برسا ابر تری مہمانی کا
پیاس کا جھولا جھول رہا تھا ایک کٹورا پانی کا




میں اداس راستہ ہوں شام کا، مجھے آہٹوں کی تلاش ہے
یہ ستارے سب ہیں بجھے بجھے، مجھے جگنوؤں کی تلاش ہے

وہ جو ایک دریا تھا آگ کا بس راستوں سے گزر گیا
ہمیں کب سے ریت کے شہر میں نہیں بارشوں کی تلاش ہے





تم نے بارشوں کو محض برستے ديکھا ہے
ميں نے اکثر بارشوں کو کچھ کہتے سنتے ديکھا ہے

تم ديکھتے ہو بارشوں کيجل تھل ہر سال
ميں نے برسات کو بڑا پلکوں کو مچلتے ديکھا ہے

کيسے مانگوں پھر برستا ساون اپنے رب سے
کہ ان آنکھوں نےبستيوں کو ساون ميں اجڑتے ديکھا ہے

سيکھ گئے ہم بارشوں کو اپنے اندر اتارنا
اور پھر سب نے ہميں ہر پل ہر دم ہنستے ديکھا ہے

تمنا جو ہے ساون کی، میری آنکھوں میں آ ٹھہرو!!!!!
وہ برسوں میں کبھی برسے، یہ برسوں سے یونہی برسیں



تيري يادوں کا ساون 
بن بادل کے جب يہ گرجتا ہے 
تيري يادوں کا ساون بن کے 
جب يہ برستا ہے

اس سمے اک ھلچل ہوتي ہے 
جب کوہُي دُور ہو کے بھي پاس ہوتا ہے
آشا من ميں جگاتا ہے
سُونے آنگن ميں پھول کھلاتا ہے 
پھر يوں ہي کبھي ايک دن 
بہت دُور چلا جاتا ہے



ميري آنکھوں کا ساون برس چکا ہے
ميري سانوں کا چلنا بگڑ چکا ہے
تيري ياد ميں اجلا ہر ايک ديپ
رو رو کر اب جل چکا ہے

بارشوں کا موسم ہے 
روح کی فضاؤں میں 
غم ذدہ ہوائیں ہیں
بے سب اداسی ہے ۔ ۔ ۔


اس عجیب موسم میں 
بے قرار راتوں کی
بے شمار باتیں ہیں
ان گنت فسانے ہیں 
جو بہت خموشی سے
دل پہ سہتے پھرتے ہیں 

اور بہ امر مجبوری 
سب سے کہتے پھرتے ہیں
آ ج موسم اچھا ہے
آج ہم بہت خوش ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


آج بہت دن بعد سنی ہے بارش کی آواز 
آج بہت دن بعد کسی منظر نے رستہ روکا ہے
رم جھم کا ملبوس پہن کر یاد کسی کی آئی ہے
آج بہت دن بعد اچانک آنکھ یونہی بھر آئی ہے



کوئي بھي رُت ہو ميري آنکھوں ميں
بيٹھ جاتي ہيں آ کے برساتيں

برستے پاني ميں خوشبو سي ميں نے کي محسوس
مجھے يقين ہے وہ بھي انھيں گھٹاؤں ميں تھي


کتنےبرس لگے
یہ جاننے میں
کہ میرےاندر تیرا ہونا کیا ہے
ایسا ہونا بھی چاہیے تھا
شام ہوتے ہی
چاند میں روشنی نہیں آجاتی
رات ہوتے ہی
رات کی رانی مہک نہیں اٹھتی
شام اور روشنی کے بیچ
ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے
جس کا ہماری زمین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
اس آسمانی لمحے نے
اب ہمیں چھو لیا ہے




رنگ برسات نے بھرے کچھ تو

رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
زخم دل کے ہوئے ہرے کچھ تو

فرصتِ بے خودي غنيمت ہے
گردشيں ہو گئيں پرے کچھ تو

کتنے شوريدہ سر تھے پروانے
شام ہوتے ہي جل مرے کچھ تو

ايسا مشکل نہيں ترا ملنا
دل مگر جستجو کرے کچھ تو

آؤ ناصر کوئي غزل چھيڑيں
جي بہل جا ئگا ارے کچھ تو

یہ کس کے سوگ میں شوریدہ حال پھرتا ھوں
وہ کون شخص تھا ایسا کہ مر گیا مجھ میں
وہ ساتھ تھا تو عجب دھوپ چھائوں رہتی تھی
بس اب تو ایک ہی موسم ٹھہر گیا مجھ میں

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تيرا مکان ہے کچھ تو خيال کر


شاخيں ہيں تو وہ رقص ميں ، پتّے ہيں تو رم ميں 
پاني کا نشہ ہے کہ درختوں کو چڑھا جائے 
ہر لہر کے پاؤں سے لپٹنے لگے گھنگھرو 
بارش کي ہنسي تال پہ پا زيب جو چھنکائے 
انگور کي بيلوں پہ اُتر آئے ستارے 
رکتي ہوئي بارش نے بھي کيا رنگ دکھائے

ایک اکیلا میں ہی گھر میں خوف زادہ سے بیٹھا تھا
ورنہ شہر تو بھیگ رہا تھا پہیلی پہیلی بارش میں


اب کون سے موسم سے کوئي آس لگائے 
برسات ميں بھي ياد نہ جب اُن کو ہم آئے 
مٹّي کي مہک سانس کي خوشبو ميں اُتر کر 
بھيگے ہوئے سبزے کي ترائي ميں بُلائے 
دريا کي طرح موج ميں آئي ہُوئي برکھا 
زردائي ہُوئي رُت کو ہرا رنگ پلائے 
بوندوں کي چھما چھم سے بدن کانپ رہا ہے 
اور مست ہوا رقص کي لَے تيز کيے جائے 


لاکھ دوري ہو مگر عہد نبھاتے رہنا 
جب بھي بارش ہو ميرا سوگ مناتے رہنا


مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کي خوشبو کي طرح
انگ انگ اپنا اسي رُت ميں مہکتا ديکھوں

اب کے ساون ميں بھي زردي نہ گئي چہروں کي
ايسے موسم ميں تو جنگل بھي ہرا لگتا ھے


محبت ايسا دريا ہے 
کہ بارش روٹھ بھي جائے 
تو پاني کم نہيں‌ ہوتا




رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
زخم دل کے ہوئے ہرے کچھ تو

فرصتِ بے خودي غنيمت ہے
گردشيں ہو گئيں پرے کچھ تو

اب اداس پھرتے ہو سرديوں کي شاموں ميں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں ميں


محتسب نے کردي واجب موسمِ برسات ميں
آگئے ہم ،سادہ دل تھے ميکشوں کي بات ميں،


اتنا یاد ہے ساون رت تھی
جب ہم ان سے دور ہوئے

اس دن سے ہی ساون برسا
ہر دن میری آنکھوں سے

اتنا یاد ہے ساون رت تھی
جب ہم ان سے دور ہوئے



معلوم اگر ہوتا
 بھاتے ہیں
 تجھے آنسو
 تو آنکھ کے
 پردے میں
 ساون کو بٹھا لیتے
اب کے ساون میں تیری یاد کے بادل ہی رہے
اب کے روئے ہیں‌ بہت بارشوں کے ساتھ ہم

شاید کوئی خواہش روتی رہتی ہے
میرے اندر بارش ہوتی رہتی ہے




گہٹائيں چہائي ھيں ساون ھے مينہ برستا ھے

وہ کس سمے ميں ھميں اشکبار چہوڑ گئے

دل حزيں ھے اب اور عہد رفتہ کا ماتم

چمن کے سينے پہ داغ بہار چہوڑ گئے

ايسے موسم ميں چپ کيوں ہو
کانوں ميں رس گولو نہ
ہونٹ اگر خاموش ہيں سجنا
آنکھوں ہی سے بولو نا

اس موسم ميں جتنے پھول کھليں گے
ان ميں تيري ياد کي خوشبو ہر سو روشن ہوگي
پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کي تصوير بناتا گزرے گا
اک ياد جگاتا گزرے گا

اس موسم ميں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
ان ميں تيري ياد کا پيکر منظر عرياں ہوگا
تيري جھل مل ياد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا

اس موسم ميں 
دل دنيا ميں جو بھي آہٹ ہوگي
اس ميں تيري ياد کا سايا گيت کي صورت ڈھل جائے گا
شبنم سے آواز ملا کر کلياں اس کو دوہرائيں گي
تيري ياد کي سن گن لينے چاند ميرے گھر اترے گا

آنکھيں پھول بچھائيں گي
اپني ياد کي خوشبو کو دان کرو اور اپنے دل ميں آنے دو
يا ميري جھولي کو بھر دو يا مجھ کو مرجانے دو


موسمِ بارش میں زخم دل کے نکھرنے لگے

درد خوشبو بن کے ہوا میں بکھرنے لگے



بارشوں کہ موسم میں 
تم کو یاد کرنے کی
عادتیں پرانی ہیں
اب کہ بار سوچا ھے 
عادتیں بدل ڈالیں 
پھر خیال آیا کہ
عادتین بدلنے سے
بارشیں نہیں روکتی




بھری برسات میں، جس وقت آدھی رات کے بادل
سیہ پرچم اڑاتے ہیں، بُجھا کر چاند کی مشعل
مکاں کے بام ودر بجلی کی رو میں جب جھکتے ہیں
سُبک بوندوں سے دروازوں کے شیشے جب کھٹکتے ہیں
سیاہی اتنی چھا جاتی ہے جب ہستی کی محفل میں
تصور تک نہیں‌رہتا سحر کا، رات کے دل میں
ستارے دفن ہو جاتے ہیں جب آغوشِ ظلمت میں
لپک اٹھتا ہے اک کوندا سا جب شاعر کی فطرت میں
معاً اک حور اس روزن میں آ کر مسکراتی ہے
اشاروں سے مجھے اپنی گھٹاؤن میں بلاتی ہے



کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا، ٹوٹ‌کے برسا پانی

رو لیا پھوٹ کے سینے میں جلن اب کیوں ہے
آگ پکھلا کے نکلا ہے یہ جلتا پانی

کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی اُمنگ
جو بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی

ٹکٹکی باندھے ہوئے پھرتے ہیں اس فکر میں
کہیں ‌کھانے لگے چکر نہ یہ گہرا پانی

بات کرنے میں وہ ان آنکھوں سے امرت ٹپکے
آرزو دیکھتے ہی منہ میں بھر آیا پانی


میں بارشوں میں جو یاد آؤں
میں بارشوں میں جو یاد آؤں
تو سوچ لینا
کہ اس کی بوندوں میں میرے اشکوں نے گھر کیا ہے
سفر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اثر کیا ہے
میں بارشوں میں جو یاد آؤں
تو سوچ لینا
کہ بھیگے موسم نے میرا آنچل بھگو دیا ہے
تھا درد ہجراں بڑا ہی قاتل
وہ میرے دل میں سمودیا ہے
تمہارے وعدوں کا تھا محل جو،
تھی اس کی بنیاد پانیوں پر
یہی سبب ہے کہ تیز لہروں نے اس کو آخر،
ڈبو دیا ہے
میں بارشوں میں جو یاد آؤں ،
تو سوچ لینا

عجیب موسم ہے بارشوں کا
عجیب موسم ہے بارشوں کا
کہ جس میں جذبے سلگ رہے ہیں
دھواں دھواں ہیں یہ بھیگی آنکھیں
جگر کے چھالے بھی تپ رہے ہیں
جلے ہوؤں کو جلا رہا ہے

عجیب موسم ہے بارشوں کا
پیام کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔سلام کوئی
گلاب کوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ خواب کوئی
تمہاری جانب سے ، پہلے پایا ہی کب تھا میں نے
کوئی بھی جذبہ
تو کیوں یہ خواہش جگا رہا ہے
عجیب موسم ہے بارشوں کا
جو دل کی دھرتی کے رنگ سارے
مٹارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارہا ہے
عجیب موسم ہے بارشوں کا




1 comment:

  1. واہ بہنا
    بہت ہی خوب
    بارش کے موسم کی صحیح عکاسی کی ہے آپ نے۔
    وہ ٹھندی ٹھنڈی ہوائیں اور برش کا جھونکا سب نظروں کے سامنے آ گیا۔
    مجھے یہی موسم اچھا لگتا ہے۔
    شیرنگ کے لیئے بصد شکریہ۔
    امید ہے جاری رکھیں گے۔

    رق

    ReplyDelete

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


اوپرجائیں